بارسلونا: سپین میں ایک ادبی تقریب میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی جب کارمن مولا نامی ایک خاتون مصنفہ کو سنسنی سے بھرپور ناول ’لا بیستیا‘ (درندہ) پر دس لاکھ یورو انعام دینے کا اعلان کیا گیا لیکن وہ انعام لینے کےلیے تین مرد اسٹیج پر آگئے۔خبروں کے مطابق، اس سال اسپین میں ’2021 پریمیو پلینیٹا‘ ادبی انعام کا حقدار کارمن مولا نامی ایک خاتون کو قرار دیا گیا جس کی مالیت 10 لاکھ یورو یعنی 20 کروڑ پاکستانی روپے سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔تاہم جب تقریب میں خاتون کا نام پکارا گیا تو اسٹیج پر تین ادھیڑ عمر مرد پہنچ گئے جن کے نام آگسٹین مارٹینیز، ہورگے ڈیاز اور اینٹونیو مرسیرو بتائے گئے ہیں جو اسپین میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کےلیے اسکرین پلے لکھتے رہے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ کارمن مولا کا کوئی وجود نہیں بلکہ وہ تینوں ہی اس خاتون کے فرضی نام سے ناول نگاری کرتے ہیں۔ ناول ’لا بیستیا‘ کی کہانی 1834 میں ہیضے کی عالمی وبا کے گرد گھومتی ہے جس کا آغاز 1817 میں ہندوستان سے ہوا، جو 1837 تک مرحلہ وار جاری رہی اور یورپ سے لے کر امریکا تک پھیل گئی۔انعام پانے والے تینوں مرد مصنفین کارمن مولا کا مشترکہ فرضی نام اختیار کرنے سے پہلے اپنے اصل ناموں سے الگ الگ لکھا کرتے تھے اور ٹی وی سیریز ’سینٹرل ہاسپٹل‘ کے علاوہ ’بلائینڈ ڈیٹ‘ کے اسکرپٹ پر بھی کام کرچکے تھے۔مارٹینیز، ڈیاز اور مرسیرو آپس میں دوست بھی ہیں اور اپنی اصل شناخت چھپاتے ہوئے ایک خاتون کے مشترکہ فرضی نام سے لکھنے کا فیصلہ انہوں نے چند سال پہلے کیا تھا۔نام کے ساتھ ساتھ انہوں نے کارمن مولا کو ایک منفرد شناخت بھی دی تاکہ لوگوں کو اس کے وجود پر یقین ہوسکے۔
ناولوں میں بتایا گیا کہ کارمن مولا ایک 40 سالہ خاتون پروفیسر ہیں جو اسپین کے شہر میڈرڈ میں پیدا ہوئیں، تین بچوں کی ماں ہیں اور اپنے فارغ وقت میں ناول لکھتی ہیں۔حیرت انگیز طور پر کارمن مولا کے انٹرویو بھی شائع ہوئے لیکن کسی نے ان کا چہرہ نہیں دیکھا بلکہ ہر تصویر میں انہیں کیمرے کی طرف پشت کیے ہوئے دکھایا گیا ہے۔پبلشر پینگوئن رینڈم ہاؤس کے بقول، کارمن مولا ایک خاتون لکھاری تھیں جو میڈرڈ میں پیدا ہوئیں۔ مولا کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ 40 سالہ ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں، جو بطور پروفیسر کام کرتی ہیں اور فارغ اوقات میں ناول لکھتی ہیں۔البتہ کارمن مولا کی حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد ان تینوں مصنفین کو خواتین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔کینیڈین مصنفہ سوسین سوان نے اس حرکت کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان مرد مصنفین میں انسانیت ہے تو انہیں انعام کی یہ رقم واپس کردینی چاہیے یا پھر خواتین کی فلاح و بہبود کےلیے کام کرنے والی کسی تنظیم کو عطیہ کردینی چاہیے۔