عریضہ /سیف اللہ خالد
قوم فروختند و چہ ارزاں فروختند
انسانوں کی اجتماعی فروخت کا ایک واقعہ 1846میں پیش آیا جب معاہدہ امرتسر کے تحت برطانوی افسر فریڈرک کیوری اورمیجر ہنری مونٹگمری لارنس نے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنگ کی نمائندگی کرتے ہوئے 16مارچ کو2 لاکھ18ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور 25لاکھ آبادی پر مشتمل ریاست کشمیر 55ہزار برطانوی پائونڈ کے مساوی رقم 75لاکھ نانک شاہی سکہ رائج الوقت(3نانک شاہی فی کس)کے عوض فروخت کردی ، اور رقم کی ادائیگی قسطوں میں ہونا طے پائی ۔کرنسی کی حالیہ شرح مبادلہ کے مطابق فی کشمیری 5700روپے پاکستانی اور فی مربع کلومیٹرقریباً 65ہزار روپے پاکستانی کے عوض پوری ریاست کشمیر اپنے پہاڑوں، وادیوں، دریائوں، چرندوں، پرندوں اور انسانوں سمیت بیچ دی گئی ۔
ایک سودے بازی لمحہ موجود میں روبہ عمل ہے ، بولی لگ چکی،قیمت قبول کرلی گئی، قانونی کارروائی کا عمل جاری ہے ، متوقع طور پر 12جنوری یا اس کے آگے پیچھے مکمل ہوسکتا ہے۔سرکاری ریکارڈکے مطابق20کروڑ 77لاکھ 74ہزار5 سو شہریوں پر مشتمل ایٹمی قوت پاکستان کی معاشی خود مختاری اور آزادی آئی ایم ایف کے ذریعہ سے امریکہ کو صرف 1.050 ارب ڈالر (فی کس 85.18 روپے)کے عوض فروخت کردی جائے گی ۔ معلوم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے لے کر طاقت کے تمام مراکز تک اس سودے بازی کو قوم فروختند کا نام دینا پسند نہیں،لیکن سٹیٹ بینک خودمختاری بل کے مندرجات کے بعد اسے اور کیا نام دیا جائے ؟خصوصاً وزیر خزانہ شوکت ترین کے اس اعتراف کے بعد کہ یہ سب آئی ایم ایف کی آڑ میں امریکی ایجنڈا ہے، جسے وہ افغانستان میں شکست اوراپنے عالمی سیاسی مفادات کے تناظرمیں آگے بڑھارہا ہے۔اس انکشاف نما اعتراف سے مستقبل میں امریکی عزائم اورہماری بے بسی ہی نہیں، ترمیمی بلوں کے نتائج اور اہداف بھی واضح نظر آرہے ہیں ۔ گوکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا اور سٹیٹ بینک کی خود مختاری اسے آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈالنے کے مترادف نہیں، لیکن ارباب خبر ونظر بخوبی جانتے ہیں کہ آنے والے ایام میں کیا کیا وقوع پذیر ہو سکتا ہے ،اور معاہدہ غلامی کے کیا کیا نتائج وعواقب قوم کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں ۔ دیگر تفصیلات کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو اس شق کو کیا نام دیا جائے کہ سٹیٹ بینک بینکنگ سکیٹر کا کوئی بھی ڈیٹا یا انفارمیشن کسی بھی غیر ملکی یا عالمی ادارے یا دوسرے کسی ملک کو فراہم کرنے کا معاہدہ کرنے میں آزاد ہوگا ، چاہے اس معلومات کو پاکستان کے کسی ادارے یاعدالت نے خفیہ ہی کیوں نہ قرار دیا ہو ۔
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد پاکستان کے تمام معاشی رازوں کا کیا ہوگا؟ پاکستان کااب تک کاایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کے حوالہ سے تمام تر خفیہ مالیاتی ریکارڈ ، سی پیک کامکمل ڈیٹاجس کے حصول کی خاطر امریکہ اب تک ٹکریں مارتا رہا ہے،دفاعی اخراجات ، انٹیلی جنس سطح کی تمام ادائیگیوں کی تفصیلات اور وہ سب کچھ جس کا چھپانا ہماری قومی ضرورت ہے، اسے آئی ایم ایف کے ذریعہ سے امریکہ کی دسترس میں جانے سے کس طرح بچایا جا سکے گا؟ کیا امریکی سازشی عناصر جب چاہے ہمارے ہی سٹیٹ بینک کے ذریعہ سے ہمارا گلا نہیں دبا ئیں گے؟ کیا یہ ڈیٹا ہمارے خلاف ثبوت کے طور پر عالمی اداروں من پیش نہیں کیا جائے گا ؟ کیا چین، روس سمیت ہمارا کوئی دوست ہمارے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ کرے گا ،جس کی تفصیلات وہ امریکیوں سے چھپانا چاہتا ہو۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی آزادی کسی دوسرے اور وہ بھی دشمن کو کس طرح سونپ سکتے ہیں؟سٹیٹ بینک ریاست پاکستان کا اثاثہ ہے ،اور آئی ایم ایف کی آڑ میں امریکی ڈکٹیشن پر ہم قانون سازی کر رہے ہیں کہ ریاست کے بوقت ضرورت سٹیٹ بینک سے قرض لینے پر پابندی ہوگی ،سٹیٹ بنک ریاست کے کسی مالیاتی لین دین کی ضمانت بھی نہیں دے گا ،ریاست پاکستان صرف سٹیٹ بینک ہی نہیں تمام بینکوں کو صرف مشورہ دے سکے گی حکم نہیں۔ کیا کسی نے سوچا کہ کوئی ایمرجنسی ، کوئی حادثہ ،تباہی یا آفت آن پڑی تو ؟، یا پھر کسی ملک کے ساتھ جنگ چھڑجاتی ہے ، جس کا خطرہ ہر وقت سروں پر منڈلارہاہے، کل کوامریکہ ہی بھارت کو شہہ دے کر حملہ کروادے توہم کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے ؟کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے ؟ جب آپ کا اپنا بینکنگ سیکٹر آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگاتو کون ہوگا جو آپ کے لئے دست تعاون دراز کرے ؟اور کرے بھی تو کیوں ؟جبکہ وہ جانتا بھی ہو کہ اس کی تمام تفصیلات پلک جھپکنے سے پہلے امریکیوں کی دسترس میں ہوں گی ۔ حکومتوں کی مجبوریاں قابل فہم ہیں،ان کی مہارتوں ہی نہیں نیتوں کا حال بھی معلوم ہے۔ لیکن ہر میدان میں دفاع پاکستان کے ضامن ادارے …جن پر قوم اعتماد کرتی ہے…وہ کہاں ہیں ؟۔
اگرکوئی سمجھتا ہے کہ معاملہ یہیں پرختم ہوجائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی نہیں بلکہ کج فہمی ہے ، بات یہاں سے چلے گی تو دور تک جائے گی۔ایٹمی اثاثوں سے لے کر دفاعی صلاحیتوں اور سی پیک کے معاملات تک بلکہ اور بھی بہت کچھ…الزام بناکر قوم کے گلے میں طوق کی صورت ڈالنے تک نوبت پہنچنا کوئی بعید نہیں ۔ آلہ کار حکمرانوں نے ہمیں اس مقام پر لا پھینکا ہے کہ جس کا کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ بدقسمتی سی بدقسمتی ہے معاملہ اب ارکان پارلیمنٹ پر آن ٹھہرا ہے ، وہ چاہیں تو ذاتی ،گروہی اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بل کو مسترد کر سکتے ہیں ، لیکن کتنے ہیں جنہیں اس بل کو سمجھنا تو درکنار پڑھنے کی بھی توفیق ہو گی ؟ جو ووٹ خرید کر ایوان میں پہنچے اور کسی بھی لمحے کسی بھی آفر پر اپنی رائے اور ووٹ فروخت کرنے کو تیار بیٹھے ہوں، امریکہ کا ویزا جن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہو ،ان سے توقع ہی کسی ۔ یہاں تک کہ اپوزیشن سے بھی نہیں ، وہ عمران خان کی مخالفت میں تو جمع ہو سکتے ہیں ، لیکن امریکی مفاد کے خلاف نہیں ۔ البتہ اپوزیشن سے یہ توقع ضرور ہے کہ لا یعنی مباحث کا ہنگامہ کھڑا کرکے، قوم کو نان ایشوز میں الجھا کر ،حکومت کو بل کی منظوری کا راستہ فراہم کرسکتی ہے۔ جوقومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی کو اکثریت نہ ہونے کے باجود سینیٹر منتخب کرسکتی ہے ،وہ چاہے تو اس بل کو مسترد کیوں نہیں کرسکتی ۔ لیکن اس کے لئے کسی نامعلوم نمبر سے فون کی ضرور ت ہے ، جس کا سردست کوئی امکان تو نہیں ،لیکن شائد…آہی جائے۔خوش فہمی پالنے میں ہرج ہی کیا ہے۔