سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام علاقے لداخ کے ایک محکمے میں سرکاری ملازمت کیلئے اُردو زبان کی سرکاری حیثیت ختم کردی گئی۔ کشمیر کے وسیع تر علاقے کا ایک حصہ لداخ 1947 سے بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تنازعہ کا شکار رہا ہے، لداخ ہمالیہ کا ایک بنجر، پہاڑی علاقہ ہے، جو تقریباً 59,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جس کا بیشتر حصہ غیر آباد ہے۔
رپورٹس کے مطابق لداخ میں 3لاکھ سے کم رہائشی ہیں ،جن میں سے نصف سے زیادہ مسلمان ہیں جبکہ دوسرا گروپ بدھ مت کے پیروکاروں کا ہے۔رپورٹس کے مطابق گزشتہ 130 سال سے زیادہ عرصے سے لداخ کی سرکاری زبان اردو رہی ہے لیکن پچھلے ہفتے لداخ کے ایڈمنسٹریٹر نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق ریوینیو ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کے شوقین افراد کی اُردو زبان میں مہارت ضروری نہیں۔
بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لداخ کے رکن پارلیمنٹ جمیانگ تسیرنگ نے اس فیصلے کا فوری طور پر خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ لداخ میں اُردو کا استعمال امتیازی تھا، یہاں کوئی قبیلہ اور کوئی برادری اُردو کو نہیں مانتی اورنہ ہی یہ کسی کی مادری زبان ہے، یہاں تک کہ یہاں کے مسلمان بھی اردو نہیں بولتے۔دوسری جانب لداخ کے مسلمان ریوینیو ڈپارٹمنٹ سے اُردو زبان کی سرکاری حیثیت ختم کیے جانے پر مقامی حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔
کارکن سجاد کارگل نے ہفتے کے روز غیر ملکی میڈیا سے گفتفگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہے، اس خطے میں اسلامی اخلاقیات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اُردو کو خطے کی سرکاری زبان ہونے کے باوجود جان بوجھ کر مسئلہ بناکر لداخ کے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔