انتباہ: اس تحریر میں جنسی نوعیت کے الفاظ و تصاویر بھی ہیں۔
مخصوص ہیجان انگیز کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون صرف کتے کا پٹہ پہنے ہوئے ایک برہنہ شخص کو زنجیر سے باندھ کر فرش پر بڑے تحکمانہ انداز میں لیے جا رہی ہے۔ ان کے قریب شراب خانے کے کاؤنٹر کے سامنے دو نیم عریاں عورتیں ڈانس کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی دائرے میں کھڑے کچھ لوگ اپنے سامنے ایک عورت اور مرد کو سرعام جنسی عمل کرتے دیکھ رہے ہیں اور اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔
ہجوم میں شامل ایک شخص نے نازی پارٹی کے کارکنوں جیسی وردی پہنی ہوئی ہے۔
یہ منظر حقیقی دنیا کا نہیں، بلکہ یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود بچوں کی ایک گیم میں ہو رہا ہے جو روبلوکس نامی گیمنگ پلیٹ فارم پر موجود ہے۔
روبلوکس پر موجود گیمز اس وقت دنیا بھر میں بچوں کی مقبول ترین آن لائن گیمز میں شامل ہیں۔
اس حوالے سے درست اعداد وشمار اتنے واضح نہیں ہیں، لیکن سنہ 2020 میں روبلوکس کے ایک عہدیدار نے خود نیوز چینل ’بلومبرگ‘ کو بتایا تھا کہ نو سے 12 سال کے درمیان کے امریکی بچوں میں سے دو تہائی ایسے ہیں جو مذکورہ گیم کھیلتے ہیں۔
روبلوکس پر گیمز کھیلنے والے بچے نہ صرف مل کر اس پلیٹ فارم پر نئے نئے کھیل ایجاد کر سکتے ہیں بلکہ دوسری گیمز کی طرح ایک دوسرے سے دور بیٹھے اپنی پسند کی گیمز بیک وقت کھیل سکتے ہیں۔ یوں وہ حقیقی دنیا سے دور ڈجیٹل یا انٹرنیٹ کی دنیا میں جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
روبلوکس کے کرتا دھرتا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پلیٹ فارم کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے روبلوکس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے صارفین کی ایک بہت چھوٹی تعداد جانتے بوجھتے ہمارے قوائد و ضوابط کے خلاف کام کرتے ہیں۔‘
کونڈو گیمز اس پلیٹ فارم پر عموماً تھوڑے سے وقت کے لیے موجود رہتی ہیں، اکثر ایک گھنٹے سے کم وقت کے لیے۔ اس کے بعد روبلوکس کی انتظامیہ کو اس کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے اور فحش گیمز کو پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ روبلوکس کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس قسم کی جنسی گیمز کو پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جائے، اور اس کے لیے وہ مینوئل اورآٹومیٹک، دونوں طرح کے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
اپنی ویب سائٹ پر روبلوکس کا دعویٰ ہے کہ ’ہم (اپنے پلیٹ فارم پر چڑھائی جانے والی) ہر تصویر، ویڈیو اور آڈیو فائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ بچوں کے لیے مناسب ہے یا نہیں اور ایسی چیزوں کا سراغ لگانے کے لیے ہم انسانوں اور مشینوں کے اشتراک سے بنایا ہوا ایک نظام استعمال کرتے ہیں۔‘
لیکن انٹرنیٹ پر بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’کنیکٹ سیفلی‘ کے سربراہ لیری میگِڈ کہتے ہیں کہ ان احتیاطی تدابیر کے باجود ’جنسی نوعیت کا کچھ مواد اس جال سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ’بلی چوہے‘ والا معاملہ ہے۔‘
کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس نظام کو مات دینے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں۔
روبلوکس پر موجود کونڈوز کوئی ایسی چیز نہیں جہاں آپ غلطی سے پہنچ جائیں، بلکہ ان کونوں کھدروں تک پہنچنے کے لیے آپ کو انھیں بڑی مستعدی سے تلاش کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی چیز کو پلیٹ فارم پر موجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔
لیری میگِڈ کہتے ہیں کہ ’روبلوکس ایک ایسا گیمِنگ پلیٹ فارم ہے جو بچوں میں بہت مقبول ہے اور اس پر 13 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی آنے کی جازت ہے، اس حوالے سے روبلوکس پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے (کم عمر) صارفین کو محفوظ رکھے۔‘
اس قسم کے پلیٹ فارمز کے حوالے سے جو چیز خاص طور پر پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بالغ افراد بھی بچوں کے ساتھ گھل مِل سکتے ہیں۔ اس قسم کی گیمز میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ آپ فوراً کسی دوسرے صارف کو پیغام بھیج کر اس سے رابطہ کر سکتے ہیں، یوں گیم کھیلنے والے مختلف افراد جب چاہیں ایک دوسرے سے انفرادی سطح پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
کونڈوز پر موجود صارفین کے درمیان گفتگو اور پیغامات کو دیکھیں تو ان میں سے بے شمار ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کی ویب سائٹ تو درکنار، بالغوں کی ویب سائٹ پر بھی اشاعت کے قابل نہیں ہوتے۔