برطاننیہ میں مہنگائی کی شرح گزشتہ ماہ توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھتے ہوئے 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس سے گھریلو مالیاتی قرض کا توازن تاریخی دباؤ کے ساتھ مزید خراب ہو گیا جبکہ وزیر خزانہ رشی سنک پر سخت دباؤ ہے کہ وہ اس صورتحال کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق برطانوی قومی شماریات ( او این ایس) کے دفتر کا کہنا ہے کہ جنوری میں 5.5 فیصد اضافے کے بعد فروری میں صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والا اضافہ 6.2 فیصد ہوگیا ، یہ اضافے کی مارچ 1992 کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے۔
برطانیہ اب گروپ آف سیون (جی 7) ممالک میں سالانہ افراط زر کی شرح کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، مہنگائی کی شرح میں برطانیہ صرف امریکا کے پیچھے ہے جبکہ عالمی اجناس اور توانائی کی قیمتیں یوکرین پر روس کے حملے بعد سے مزید بڑھ گئی ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے رائٹرز کے سروے میں زیادہ تر ماہرین نے 5.9 فیصد شرح رہنے کی پیش گوئی کی تھی، 39 جواب دہندگان میں سے صرف تین نے مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
او این ایس نے گھریلو توانائی کے بلوں میں اضافے کو نمایاں کیا جن میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریبا 25 فیصد زیادہ دیکھا گیا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فروری کے مہینے میں ہونے والے اضافے کا سب سے بڑا عنصر ہے۔
او این ایس نے غریب گھرانوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے بتایا کہ عام حالات کے برعکس کھانے پینے کی تمام اشیا کی قیمتیں یکساں طور پر بڑھ رہی ہیں جبکہ عام حالات میں کچھ اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور اس کے ساتھ کچھ اشیا کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں۔
وزیر خزانہ رشی سنک کئی دہائیوں میں زندگی گزارنے کے سب سے بدترین دباؤ کے دوران برطانوی شہریوں کی مدد کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
نیوز سورس ڈان نیوز