میہڑ کے دو دیہات میں سانحے کو دوسرا روز ہو گیا لیکن متاثرین اب تک بے یارو مددگار ہیں۔
متاثرین نے بچے ہوئے سامان کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزاری، انتظامیہ کی جانب سے نہ خیمے مہیا کیے گئے اور نہ ہی کھانے پینے کی مناسب اشیاء فراہم کی گئیں۔
گھر کا سامان اور اناج آگ میں جل چکا، کئی لوگوں کے پاس نہ سونے کے لیے بستر ہے اور نہ ہی پینے کا پانی ہے، متاثرین غم سے نڈھال ہیں۔
میہڑکے گاؤں فیض محمد چانڈیو کی فضا سوگوار ہے، 9 معصوم بچوں کی ہلاکت کا غم اور بےگھر ہو جانے کا صدمہ لیے کھلے آسمان تلے سینکڑوں خاندان حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ایک ایک چارپائی پر پورا پورا خاندان اور بچ جانے والا سامان گزرے حادثے کا پتہ دیتا ہے۔
چوبیس گھنٹوں بعد بھی جلےگھروں کی راکھ سے نکلتی چنگاریاں، انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آگ لگنے سے متعلق متضاد بیانات نے معاملے کو اور الجھا دیا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہےکہ گھرکے چولہے سے چارے میں لگی آگ تیز ہواؤں سے پھیل گئی جبکہ مقامی افراد میں سے کچھ کا کہنا ہےکہ بچوں کی لگائی آگ کے شعلےگھروں تک جا پہنچے۔
غم کے مارے متاثرین کا شکوہ یہ بھی ہےکہ مقامی ایم این اے اور ایم پی اے نے اس مشکل وقت میں ان کا فون تک اٹینڈ نہیں کیا، پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، وزیراعلیٰ ہمارے جان و مال کی حفاظت نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔
30 گھنٹے سے زائد گزر جانے کے باوجود ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر قیادت کا متاثرین تک نہ پہنچنا اپنی جگہ ایک سوال ہے لیکن قابل تفتیش اور قابل گرفت یہ بھی ہے کہ آگ لگنے کے بعد ریسکیو ایکشن میں گھنٹوں تاخیر کیوں ہوئی۔
اتنی بڑی آبادی کے لیے محض 2 فائر بریگیڈ اور وہ بھی خراب؟ سچ تو یہ ہے کہ میہڑ حادثے نے اندرون سندھ حکومتی کارکردگی اور انتظامی صلاحیت کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔