ڈیوس: دنیا بھر میں لوگ ریشے دار (فائبر) غذاؤں سےدور رہتے ہیں اور دوسری جانب اینٹی بایوٹکس ادویہ دھیرے دھیرے اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر والی غذائیں معدے کی سطح پر ایسی تبدیلی لاتی ہیں کہ اینٹی بایوٹکس ادویہ کی تاثیر کم ہونے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔
ایم بایو نامی جرنل میں شائع تحقیق میں بالغ افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ روزانہ 8 سے 10 گرام حل شدہ فائبر ضرور کھائیں جو ان کے لیے انتہائی مفید ہوگی۔ یہ فائبر معدے اور آنتوں کے خردنامیوں (بیکٹیریا) کی کیفیت بدل کراینٹی بایوٹک دواؤں سے بدن کی مزاحمت کو روک سکتی ہیں۔ بصورتِ دیگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مریض پر تیسرے درجے کی اینٹی بایوٹکس بھی اثر نہیں کرتیں۔ اب اینٹی بایوٹکس مزاحمت طبی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ بھی بن چکی ہے۔
دنیا بھر میں لاتعداد مریض ایسے ہیں جن کی بیماریاں، ٹیٹرسائیکلین اور ایمائنوگلائکوسائیڈ جیسی عام دوا کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض بیکٹیریا اور وائرس بہت چالاکی سے خود کو تیزی سے بدلتے ہوئے، ان دواؤں کو ناکارہ بناتے رہتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس کی جڑ انسانی معدے اور آنتوں میں ہے جہاں کئی طرح کے خردنامئے جینیاتی طور پر اینٹی بایوٹکس سے محفوظ رہتے ہیں۔
اس ضمن میں ریشے دار غذائیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ کیلیفورنیا کے شہر ڈیوس میں اے آر ایس مرکز سے وابستہ ڈینیئل لیمے اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ کم گوشت اور زائد فائبر کی غذائیں نظامِ ہاضمہ کے خردنامیوں میں اینٹی بیکٹیریئل رسسٹنس والے جین (اے آرجی) کم کر دیتی ہیں۔ پھر اگر اے آر جی کی شرح جتنی کم ہوگی معدے میں ان ایروبک خردنامیوں کی تعداد اتنی ہی زائد ہوگی۔ یہ بلاشبہ آنتوں اور معدے میں تندرست خردنامیوں کی ایک اچھی مثال بھی ہے۔
ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ دوہری تندرستی کے لیے دالوں، جو، لوبیا، گری دار پھل، اور مکمل اناج (ہول گرین) ضرور کھائیں۔ تاہم بروکولی، گاجروں اور بیریوں میں بھی فائبر پایا جاتا ہے۔
اس ضمن میں 290 افراد پر چھوٹی سی تحقیق کی گئی ہے۔ تمام افراد کو دو گروہوں میں بانٹ کر انہیں فائبر اور غیرفائبر غذائیں کھلائی گئیں اور ان کے معدے میں خردنامیوں کا جائزہ لیا گیا۔ جن افراد نے فائبر والی غذا استعمال کیں ان کے پیٹ میں اینٹی بیکٹیریا مزاحمت کو روکنے والے مفید بیکٹیریا زیادہ دیکھے گئے۔