حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اہم فنڈز جاری کرنے کے سلسلے میں مذاکرات شروع کردیے ہیں، مذاکرات کا یہ عمل ملک میں معاشی اصلاحات نہ ہونے کے خدشات کے باعث سست روی کا شکار ہے۔
وزارت خزانہ نے ٹوئٹ میں بتایا کہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں جو اگلے ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں۔
پاکستان نے عالمی اداروں سے معیشت کے لیے سپورٹ مانگی ہے، جو قومی قرضوں میں اضافے، افراط زر میں اضافے اور روپے کی بے قدری سے شدید متاثر ہے۔
مذاکرات میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، سیکریٹری فنانس حمید یعقوب شیخ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے نگراں گورنر ڈاکٹر مرتضٰی سید سمیت فنانس ڈویژن کے دیگر حکام شامل ہیں۔
مذاکرات کا اہم نکتہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر دی جانے والی بھاری سبسڈی ہے، جبکہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں طرف سے کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جائے۔
ماہر معاشیات شاہ رخ وانی نے کہا کہ حکومت، آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ سیاسی استحکام حاصل کرنے کے لیے کچھ سبسڈیز کو جاری رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف ممکنہ طور پر اور ٹھیک کہے گا کہ یہ غیر پائیدار ہے اور تجارتی اور بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے سبسڈیز کو ختم کر دینا چاہیے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے ‘بیل آؤٹ پیکیج’ پر 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے دستخط کیے تھے جس پر کبھی بھی مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا، کیونکہ ان کی حکومت نے معاہدے کے برخلاف سبسڈیز کو ختم کیا نہ ہی ریونیو اور ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا۔
اسلام آباد نے اس پروگروام کے تحت اب تک 3 ارب ڈالر وصول کیے ہیں جس کا اختتام سال کے آخر میں ہونا ہے۔