الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو ناقص اور غلط قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا کہ پینل اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی ہدایات پر شیڈول بینکوں کی جانب سے اسے فراہم کردہ اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات دکھانے میں ناکام رہا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ای سی پی کے تین رکنی بینچ کے سامنے حتمی تکنیکی دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے مالیاتی ماہر نجم الثاقب شاہ نے دعویٰ کیا کہ اکاونٹ اسٹیٹمنٹس میں باؤنس ہونے والے چیک کی رقوم کو غلط طریقے سے ظاہر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے موصول ہونے والی تمام رقم ظاہر شدہ کھاتوں میں جمع کرائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے صرف ان بینک برانچوں کی تفصیلات فراہم کی جہاں پارٹی کے اکاؤنٹس کھلے ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے ان کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں اکاؤنٹس کی کل تعداد واضح نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ 15مارچ کو پی ٹی آئی کی جانب سے 11 بینک اکاؤنٹس کو مسترد کر دیا گیا تھا جو ای سی پی کمیٹی کی چار سال کی جانچ پڑتال کے دوران اس کی ملکیت تھے مگر وہ درحقیقت صوبائی اکاؤنٹس تھے جہاں مرکزی اکاؤنٹس سے رقم متعلقہ صوبوں میں پارٹی امور چلانے کے لیے منتقل کی گئی تھی۔
یہ اکاؤنٹس پہلی مرتبہ 15 مارچ کو ای سی پی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں سامنے آئے تھے، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے صفحہ 92 کے مطابق پی ٹی آئی نے مالی سال 12-2008 کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں صرف دو بینک اکاؤنٹس کا انکشاف کیا اور سال 2013 کے لیے چار اکاؤنٹس ڈکلیئر کیے تھے، اس کے برعکس اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ پارٹی نے 2008 میں پانچ، 2009 میں سات، 2010 میں 13، 2011 میں 14 اور 2012-13 میں 14 اکاؤنٹس چھپائے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے تحریری جواب میں یہ کہتے ہوئے 11 اکاؤنٹس کو مسترد کردیا تھا کہ یہ اکاؤنٹس 2018 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے انکشاف پر پی ٹی آئی کے علم اور معلومات میں آئے تھے۔