امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں ایک 18 سالہ بندوق بردار نے کلاس رومز میں جا کر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کم از کم 19 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق حملہ آور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مارا گیا، حکام نے بتایا کہ مرنے والوں میں 2 بالغ افراد بھی شامل ہیں، گورنر گریگ ایبٹ نے کہا کہ ان 2 افراد میں ایک استاد بھی شامل ہیں۔
روب ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کا یہ تازہ واقعہ، دسمبر 2012 میں نیو ٹاؤن (کنیکٹی کٹ) میں سینڈی ہک ایلیمنٹری میں ایک بندوق بردار کے ہاتھوں 20 بچوں اور 6 بالغ افراد کی ہلاکت کے بعد سے امریکی گریڈ اسکول میں ہونے والا سب سے مہلک حملہ ہے۔
حملے کے کئی گھنٹے بعد بھی اہل خانہ اپنے بچوں کے بارے میں کسی بیان کا انتظار کرتے رہے، شہر کے سوک سینٹر کے باہر خاندانوں کو جمع ہونے کے لیے کہا گیا جہاں ان کی آہ و بکا سنی جاسکتی ہے۔
اسکول کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ ہال ہیرل نے کہا ’آج میرا دل ٹوٹ گیا، اسکول کی تمام سرگرمیاں فی الحال منسوخ کردی گئی ہیں، ہم ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہیں اور ہمیں اس تکلیف سے گزرنے کے لیے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے‘۔
یہ حملہ نیو یارک کے بفیلو سپر مارکیٹ میں ایک مہلک، نسل پرستانہ ہنگامہ آرائی کے صرف 10 دن بعد ہوا ہے جس نے گرجا گھروں، اسکولوں اور دکانوں میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کے برسوں پر محیط سلسلے میں اضافہ کیا، سینڈی ہک کی موت کے بعد ملک میں بندوق کے قوانین میں کسی بھی قسم کی اصلاح کے امکانات تاحال مدھم نہیں تو دھیمے ضرور محسوس ہورہے ہیں۔
لیکن امریکی صدر جو بائیڈن حملے کے چند گھنٹے بعد قوم کو مخاطب کرتے ہوئے بندوق کی نئی پابندیوں کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار نظر آئے۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’بحیثیت قوم ہمیں پوچھنا ہوگا کہ خدا کے واسطے ہم کب بندوق کی لابی کے سامنے کھڑے ہوں گے؟ خدا کے واسطے ہم کب وہ کریں گے جو ہمیں بہرحال کرنا ہے؟‘