وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ’گرینڈ ڈائیلاگ‘ کی ضرورت ہے، جس میں ملک کی ترقی سے منسلک تمام شعبے پر بات کی جائے۔
لاہور میں انڈس ہسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ملک کو آگے چلانا ہے تو ہمیں بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنے ہوں گے، ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ گرینڈ ڈائیلاگ کا مقصد یہ ہے اس میں صحت، تعلیم، صنعت اور زراعت کی ترقی کے لیے بات کی جائے، آئی ٹی سمیت متعدد ایسے شعبے ہیں جن سے یہ ملک بہت آگے بڑھ سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاست کی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن سابقہ حکومت نے پی کے ایل آئی جو خطے کا بہترین ہسپتال تھا اسے سیاست کے نذر کردیا، اس کے بہترین عملے کو بے عزت کرکے نکال دیا گیا، اس میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر بیرون ملک سے اپنی نوکریاں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صرف سیاست کے خاطر اتنا بڑا جرم کیا کہ لاکھوں لوگوں کو بے آسرا کردیا، یہ دروازہ بند ہو جانا چاہیے، کوئی آئے کوئی جائے صنعت، تعلیم، صحت، زراعت، معیشت پر سیاست کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے دل چاہیے، بڑی سوچ چاہیے، اس کے لیے ہمیں اپنی ذات سے بالاتر ہونا ہوگا، اپنی انا کو مارنا ہوگا، یہ سب ہمیں اپنی قوم کے لیے کرنا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگلی حکومت آئی اور پچھلی حکومت کے ادارے تباہ کردیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہم نے تقدیر کو بدلنا ہے تو اقبال کے نظریے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کہتا ہوں کہ قرض پر انحصار کرنے والا ملک کب تک زندہ رہے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پیٹرول، بجلی اور دیگر کی قیمتیں جو بڑھی ہیں یہ ابھی کا فیصلہ نہیں ہے، یہ معاملہ اس وقت سے چل رہا ہے جب تحریک عدم اعتماد کی بات ہو رہی تھی، اس وقت ہمیں دنیا میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بنگلہ دیش کو کہا جاتا تھا کہ وہ بوجھ ہیں، لیکن بنگالی بوجھ نہیں تھے انہیں بوجھ بنا کر پیش کیا گیا، آج ان کی برآمدات 40 ارب ڈالر ہے، ہم اب بھی 27، 28 ارب ڈالر پر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب دنیا میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی، تو ہم نے مارچ کے مہینے میں یکایک قیمتوں کو گرا دیا، ساڑھے تین سال کسی کو ایک ڈھیلا نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دل پر پتھر رکھ کر قیمتیں بڑھانی پڑیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ غریب شہریوں پر بوجھ نہ پڑے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ میں موجود ڈیٹا بہت شفاف ہے، اس کے تحت ہم 7 کروڑ عوام کو 2 ہزار روپے ماہانہ دیں گے۔
’ایک ماہ کا حساب دینے کو تیار ہوں، ساڑھے 3 سال کا حساب کون دے گا‘
لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے پلانٹ موجود ہیں لیکن ساڑھے تین سال تک جو ہوا اس کا حساب کون لے گا مجھے آئے ہوئے ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے، میں حساب دینے کو تیار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کہہ دیا ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کسی صورت برداشت نہیں کرونگا۔
ان کا کہنا تھا بجلی کے منصوبے موجود ہیں لیکن ایندھن مہنگا منگوانا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت میں ایل این جی وقت پر نہیں لی گئی جبکہ اس وقت ایل این جی سستی مل رہی تھی۔
’تمام فنڈز بحال کیے جائیں گے‘
اس موقع پر وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ بلاسود قرضہ اسکیم کے نائب چیئرمین کو اسٹیج پر بلایا، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران وزیر اعلیٰ بلا سود قرضہ اسکیم کے فنڈز بند کر دیے گئے ہیں۔
انہوں بتایا کہ شہباز شریف نے اس اسکیم کا آغاز ساڑھے 3 ارب سے کیا تھا جو چند ہی سالوں میں 12 ارب تک پہنچ گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کے تحت بغیر رنگ و نسل کی تفریق کے لوگوں کی مدد کی گئی تھی، میرا وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ اسکیم کے فنڈز دوبارہ بحال کرتے ہوئے اس اسکیم کو پورے ملک کے لیے نافذ العمل کیا جائے۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم نے کہا کہ اسی اسکیموں کو بند کی گئیں یا سیاست کا نام کردی گئیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نائب چیئرمین نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں مجھ سے بارہاں ملنے کی کوشش کی لیکن میں نے ان سے اس لیے ملاقات نہیں کی کہ یہ سابقہ حکومت کے وزیر عتاب نہ آجائیں۔
شہباز شریف نے یقین دہانی کروائی کہ آج سے تمام اسکیمیں بحال کرنے پر کام دوبارہ کام شروع کردیا جائے گا، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا اب اس بات پر افسوس ہوا ہے کہ یہ اسکمیں سفید پوش اور یتیم بچوں اور بچیوں کے لیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعلیٰ کو کہا ہے کہ پیک اوور میں میٹرو کے ٹکٹ آدھے کردیے جائیں تاکہ غریب آدمی کو ریلیف دیا جاسکے
لاہور میں انڈس ہسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ویلفیئر ہسپتال کی تعمیر پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 2013 میں میری ملاقات میاں احسان اور اقبال کرچی صاحب سے ہوئی تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی بنانی ہے یہ انسانی فلاح کا کام ہے اس میں