مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت نے سابقہ دور حکومت میں کیے گئے معاہدوں کی بد انتظامی کو پہلی بار تسلیم کرتے ہوئے اسے توانائی کے شعبے میں بڑا چیلنج قرار دیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ ملک کی سیاست میں عدم استحکام، روس یوکرین جنگ، بڑھتے ہوئے صوبائی خسارے، نمایاں نقصانات اور ریاستی اداروں (ایس ای او) کے قرضے آئندہ سال کے بجٹ اور مالیاتی منظر نامے کے لیے کلیدی خطرہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ کے حصے کے طور پر پبلک فنانس ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ کو درکار بیان میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور سیکریٹری فنانس حامد یعقوب شیخ نے اضافی سبسڈی اور سود کی ادائیگیوں میں اضافے اور طلب کے برعکس درآمد سے محصولات میں کمی پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی ترقی، مالیاتی استحکام اور مالیاتی تخمینے میں خطرات لاحق ہیں۔
نہوں نے کہا کہ ’بجلی کے شعبے کے نقصانات کے پیچھے بنیادی وجوہات میں پیداوار کی زیادہ لاگت، مہنگی ٹیکنالوجیز اور ناقص ڈیزائن کردہ معاہدے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں نجی سرمایہ کاروں کے لیے بے تحاشہ منافع اور پلانٹ کے آپریشنز کے پہلے 10 سالوں کے دوران قرض کی ادائیگیوں کی فرنٹ لوڈنگ، اوسط سے زیادہ جبکہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور بجلی کے بلوں کی وصولی اوسط سے کم ہوگی۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں، اس وقت حکومتی سبسڈی کا سب سے بڑا وصول کنندہ توانائی کا شعبہ ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو کئی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور ایسے خطرات کے ممکنہ منفی اثرات پر قابو پانے یا ان کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سلور لائننگ یہ ہے کہ ملک نے پہلے ہی کچھ شعبوں میں کافی ترقی کر لی ہے اور باقی رہ جانے والے شعبہ جات میں خطرات سے نمٹنے کے لیے متعدد طریقہ کار موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس نے پبلک فنانشل مینجمنٹ ( پی ایف ایم ) اصلاحات کے تحت خطرے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کا عزم کیا گیا ہے تاکہ بجٹ سائیکل کے تمام مراحل میں نظم و ضبط، شفافیت اور ساکھ میں اس طرح کے خطرات کو روکنے یا کم کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے‘۔
تیل، گیس اور کوئلے جیسے ایندھن کی درآمدات پاکستان کے مجموعی درآمدی بل کا ایک بڑا حصہ ہے اور ان کی قیمتیں مختلف اشیا اور خدمات کی قیمتوں کو متاثر کرتی ہیں کیونکہ وہ متعدد ذرائع سے پیداواری لاگت کو پورا کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں نقل و حمل اور توانائی کے اخراجات وغیرہ شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ مہنگائی کی شرح میں اتار چڑھاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے جو نتیجتاً شرح سود اور شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتی ہے‘۔
مزید برآں، درآمدی ایندھن کی لاگت میں اضافہ چاہے وہ بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی وجہ سے ہو یا روپے کی گرتی ہوئی، یا دونوں کی وجہ سے ہو، جی ڈی پی کو کم اور محصولات میں اضافے کو بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، افراط زر، شرح سود، سود کی لاگت، مالیاتی خسارہ اور عوامی قرض معیشت کو متاثر کرنے والے عوامل میں شامل ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ اس وقت مالی مسائل اور خطرات سے نمٹنے کے لئے کوئی فریم ورک موجود نہیں ہے جس سے درآمدی ایندھن کی بڑھتی ہوئی قابل حیرت قیمتوں سے نمٹا جاسکے‘۔
اس طرح بیان میں نشاندہی کی گئی کہ صوبوں کی طرف سے ’سخت مالیاتی نظم و ضبط‘ اور اس کے نتیجے میں ان کے نقد میں اضافہ ملک کے مجموعی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اہم جز ہے۔
نیوز سورس ڈان نیوز