روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بیلاروس کے ہم منصب کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ماسکو، منسک کو جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل میزائل سسٹم فراہم کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی صدر سے ملاقات میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اپنے پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کی جارحانہ اور تصادم آمیز پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے روسی صدر سے بیلاروس کی سرحدوں کے قریب امریکی زیر قیادت نیٹو اتحاد کی طرف سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پروازوں کے خلاف ’مستحکم ردعمل‘ دینے میں بیلاروس کی مدد کرنے کی درخواست کی۔
اس پر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کے خیال میں فی الحال متوازن ردعمل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ضرورت پڑی تو بیلاروس کے روسی ساختہ ’ایس یو 25‘ لڑاکا طیاروں کو روسی فیکٹریوں میں اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے۔
روس کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیلاروس کے صدر سے کہا کہ ہم اسکندر-ایم ٹیکٹیکل میزائل سسٹم بیلاروس کو منتقل کریں گے جن کو وہ بیلسٹک اور کروز میزائل دونوں روایتی اور جوہری ورژن میں استعمال کر سکتا ہے۔
اسکندر-ایم، ایک موبائل گائیڈڈ میزائل سسٹم ہے جسے نیٹو نے ’ایس ایس -26 اسٹون‘ کا کوڈ نام دیا ہے، اس میزائل سسٹم نے سوویت یونین کے ’اسکڈ‘ کی جگہ لی تھی اور اس کے دو گائیڈڈ میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر تک ہے اور یہ روایتی یا جوہری وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں۔
دونوں سربراہان کے درمیان ملاقات کے کچھ حصے ٹیلی ویژن پر بھی نشر کیے گئے۔
بیلاروس کے صدر نے اپنے ملک اور اس کے قریبی اتحادی روس کو ایک ہی چتھری قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کو ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیے، یہاں تک کہ بریسٹ سے لے کر ولادی ووستوک تک اپنے آبائی وطن کے دفاع کے لیے سنجیدہ ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر انہوں نے بیلاروس کے فوجی طیارے کو جوہری صلاحیت کے حامل بنانے کے لیے روس سے مدد طلب کی ہے۔
روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی اس وقت سے بڑھ گئی ہے جب چار ماہ قبل روس نے یوکرین سے جنگ شروع کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ نیٹو نے یوکرین کو تسلیم کرنے اور اسے روس کو دھمکی دینے کے لیے ایک محاذ کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
نیوز سورس ڈان نیوز