وزیراعلی پنجاب کا انتخاب، اتحادی جماعتوں کا مقدمے کے بائیکاٹ کا اعلان

eAwazآس پاس

پاکستان جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اتحادی جماعتیں واضح مؤقف دینا چاہتی ہیں کہ اگر فل کورٹ مسترد کیا جاتا ہے تو ہم بھی عدلیہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور ہم اب اس کیس کے حوالے سے اس بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، مقدمے کا بائیکاٹ کریں گے اور اس مقدمے کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اسلام آباد میں حکمران اتحاد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا ایک مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے معاملے میں جو کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اسے تین ججوں کا بینچ نہ سے بلکہ تمام ججوں پر مشتمل کورٹ سنے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ تین ججوں کی ماضی میں فیصلوں کی وجہ سے ان کے ذہنی میلان کا اندازہ لگ رہا تھا کہ اس بینچ کا دیا جانے والا فیصلہ جانبدارانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا لہٰذا فیصلے پر دونوں فریقوں کے اعتماد اور قوم کے اعتماد کو بحال اور برقرار رکھنے کےلیے ہم نے فل کورٹ کی تجویز دی تھی،

ان کا کہنا تھا آج ہمارے وکلا نے اس مؤقف کی بنیاد پر عدالت کے سامنے بھرپور طور پر آئین اور قانون کے مطابق بینچ کو مشورہ دیا لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے ایک غیرجانبدار کی حیثیت میں ٹھنڈے دل کے ساتھ ہمارے مطالبے پر غور کرنے اور قبول کرنے کے بجائے مسترد کر دیا، اور فیصلہ تین ججوں پر مشتمل بینچ ہی کرے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اتحادی جماعتیں واضح مؤقف دینا چاہتی ہیں کہ اگر فل کورٹ مسترد کیا جاتا ہے تو ہم بھی عدلیہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور ہم اب اس کیس کے حوالے سے اس بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، مقدمے کا بائیکاٹ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام میں عدلیہ کے ایسے فیصلے جس نے حکومتی نظام میں اضطراب پیدا کیا ہے، پالیسیوں کے تسلسل کو توڑا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحران پیدا ہوئے ہیں، یہ حکومت اب اس تسلسل کو ختم کرنا چاہتی ہے، حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ادارہ مداخلت نہ کرے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایسی کوئی مداخلت جو حکومتی عمل اور سرکار کے عمل کو متاثر کرے اس سے ہر ایک اجتناب کرے، ورنہ ہم حکومت، وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو تجویز دیں گے کہ اس حوالے سے بھی اصلاحات کے حوالے سے ازسرنو قانون سازی کی جائے کہ جس میں قوم، عدلیہ اور ان کے فیصلوں پر اعتماد کرسکے، ان کے فیصلے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کا ذریعہ بنیں اور عوام کے اعتماد کا سبب بنیں۔

ان کا کہنا تھا ہماری توجہ اس جانب بھی مبذول ہے اور ہم آنے والے وقتوں میں ہم اصلاحات کی منزل بھی حاصل کریں گے، قوم کو آنے والے مستقبل میں نوید دیں گے، اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔