اسلام آباد: عالمی بینک نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی دریاؤں پر 2پن بجلی منصوبے لگانے پر پاکستان کے خدشات دور کرنے کیلیے متوازی طور پر دو قانونی عوامل شروع کرنے کا اعلان کیاہے، جس سے 6برس پرانا تعطل ٹوٹ گیا۔
1960ء کے سندھ طاس معاہدے نے تب پیچیدہ راستہ اختیار کیا جب اسلام آباد اور نئی دہلی معاہدے میں دیئے گئے تنازعات کے حل کیلئے کسی طریقہ کار پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے۔
عالمی بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا سندھ آبی معاہدے کے تحت اپنی ذمے داریوں کے مطابق وہ تقرریاں کی ہیں جو اسے کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں کے سلسلے میںبھارت اور پاکستان کی طرف سے درخواست کردہ دو الگ الگ عمل میں کرنے کا منشور دیا گیا تھا۔
بھارت نے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کی تھی جبکہ پاکستان نے ثالثی عدالت کا انتخاب کیا تھا۔عالمی بینک نے مشیل لینو کو غیر جانبدار ماہر اور پروفیسر شان مرفی کو ثالثی عدالت کا چیئرمین مقرر کیاہے۔ وہ انفرادی حیثیت میں مضامین کے ماہرین کے طور پر اور کسی بھی دوسری تقرری سے آزادانہ طور پر فرائض انجام دیں گے ۔
پاکستان کے انڈس کمشنرمہر علی شاہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ثالثی عدالت کو حکم امتناعی دینے کا اختیار حاصل ہے جبکہ غیر جانبدار ماہر کے پاس ایسے اختیارات نہیں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی ایک عمل پر اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کے بعدعالمی بینک نے کام کیا۔ 2016ء میں پاکستان نے اس سے کہا وہ 2 پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر خدشات پر غور کرنے کیلئے ثالثی عدالت کے قیام میں سہولت فراہم کرے۔