ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد دستاویزات چین، ایران کی حساس معلومات پر مبنی ہونے کا انکشاف

eAwazورلڈ

معروف امریکی جریدے ‘واشنگٹن پوسٹ’ نے رپورٹ کیا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والی خفیہ دستاویزات ایران کے میزائل پروگرام اور چین سے متعلق امریکی انٹیلی جنس ڈیٹا کی معلومات پر مبنی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ خفیہ دستاویزات اس وقت برآمد ہوئیں جب اگست میں ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کا آغاز

‘واشنگٹن پوسٹ’ کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ’اگر یہ معلومات دوسروں کے ساتھ شیئر کی گئی تو ایسی معلومات کو اکٹھا کرنے کے لیے انٹیلی جنس کے طریقے بے نقاب ہوسکتے ہیں جنہیں امریکا دنیا سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے‘۔

ایک دستاویز میں ایران کے میزائل پروگرام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جبکہ دوسری دستاویزات میں چین کے بارے میں انتہائی حساس انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 8 اگست کو ایف بی آئی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر کی تلاشی کے دوران کچھ انتہائی حساس مواد برآمد ہوا، تقریباً 13 ہزار دستاویزات قبضے میں لی گئیں جن میں سے 103 کلاسیفائیڈ اور 18 ٹاپ سیکریٹ تھیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے پہلے رپورٹ دی تھی کہ ایف بی آئی کی تلاش کے دوران ضبط کی گئی دستاویزات میں سے ایک میں ملک کی فوج کی دفاعی اور جوہری صلاحیت کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جن لوگوں نے یہ اطلاع دی انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ معلومات ایران، چین یا کس اور ملک سے متعلق تھیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2022 میں حکومت کو 15 ڈبے واپس کیے تھے، ان کی جانچ سے معلوم ہوا کہ ان میں موجود 184 دستاویزات کلاسیفائیڈ تھیں جبکہ 25 ٹاپ سیکرٹ تھیں۔

تاہم امریکی حکام نے محکمہ انصاف کو مطلع کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پاس موجود تمام خفیہ مواد کو واپس نہیں کیا ہے، جون میں ڈونلڈ ٹرمپ کے معاونین نے ایک مہر بند لفافہ حوالے کیا جس میں 17 ٹاپ سیکریٹ دستاویزات سمیت مزید 38 خفیہ دستاویزات شامل تھیں۔

سیکیورٹی کیمرہ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ اسٹوریج ایریا سے بکس لے جائے جا رہے ہیں، ایک اہم گواہ نے ایف بی آئی کو بتایا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر بکسوں کو منتقل کیا۔

لیکن سابق امریکی صدر کا اصرار ہے کہ ان کے اقدامات قانونی تھے، انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں ’فاکس نیوز‘ کو بتایا کہ اگر آپ امریکا کے صدر ہیں تو آپ کے صرف ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ کہہ دینے سے یہ دستاویزات ڈی کلاسیفائی ہوسکتے ہیں، آپ صدر ہیں، یہ فیصلہ آپ ہی کرتے ہیں‘۔