لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اسد عمر نے عدلیہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے، 26 نومبر کو جلسے میں عدالتوں اور ججز کو نشانہ بنایا۔
کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس جواد حسن نے کی جس کے دوران سی پی او، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اسد عمر کو بدھ 7 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ اسد عمر نے 26 نومبر کو جلسے میں عدالتوں اور ججز کو نشانہ بنایا۔
اس موقع پر عدالت نے اسد عمر کے بیان کی ویڈیو اور ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر لیا اور اسد عمر کے وکیل فیصل چوہدری کو اگلی سماعت پر اپنے مؤکل کو ساتھ لانے کا حکم دے دیا۔
عدالتِ عالیہ نے کہا کہ پہلے اسد عمر کی 26 نومبر کے جلسے میں کی گئی تقریر دیکھیں گے، انہوں نے 26 نومبر کے جلسے میں عدالتوں کو اسکینڈلائز کیا، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کی درخواست پر اسد عمر کے خطاب کی جواب طلبی کی ہے، آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت کسی بھی ادارے اور شخصیت کو متنازع نہیں بنایا جا سکتا، عدالت کو اختیار ہے کہ آرٹیکل 204 بی کے تحت سزا دے سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ لانگ مارچ ختم ہو چکا ہے، دھرنوں کے خلاف درخواستوں اور اسد عمر کی تقریر پر بدھ کو سماعت کریں گے۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے کیس کی سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کر دی۔