برطانیہ نے مستقبل کے وبائی امراض کی نئی شکلوں کی شناخت کے لیے جینیاتی ابتدائی انتباہی نظام تیار کیا ہے۔
برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کے کیمبرج شائر میں ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ کے محققین سانس کے وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں کی نگرانی کے لیے ایک اہم ٹیکنالوجی تیار کر رہے ہیں تاکہ خطرناک نئی اقسام کی نشاندہی کی جا سکے اور نئی بیماریوں اور مستقبل کی وبائی امراض کے لیے ابتدائی انتباہی نظام کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
محققین کی اس ٹیم کا مقصد ٹیکنالوجی کو سستا، استعمال میں آسان اور وسیع پیمانے پر وائرس کی عالمی سطح پر نگرانی فراہم کرنے کے قابل بنانا ہے۔
اس نظام کے اہداف میں انفلوئنزا وائرس، ریسپایئریٹری سنسیشل وائرس (RSV)، کورونا وائرس اور پیتھوجینز شامل ہوں گے۔
اس ’ریسپایئریٹری وائرس اینڈ مائیکرو بایوم انیشی ایٹو‘ پراجیکٹ کا مقصد ایک ایسا نظام بنانا ہے جو ڈی این اے کی ترتیب دینے والی ٹیکنالوجی کو تعینات کرے گا تاکہ کسی مریض کی ناک سے اکٹھے کیے گئے ایک ہی نمونے سے تمام وائرل، بیکٹیریل اور فنگل انواع کی شناخت کی جا سکے۔
جینیات کی تحقیق اور ڈی این اے کی ترتیب کے لیے دنیا کے معروف مرکز سینگر انسٹی ٹیوٹ میں اس پراجیکٹ کے سربراہ ایون ہیریسن کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کورونا کی جینومک نگرانی میں سرفہرست تھا اور اس وبا کے دوران زمین پر ترتیب دیئے گئے تمام ’Sars-CoV-2‘ جینومز میں سے تقریباً 20 فیصد کے لیے ذمہ دار تھا۔
مستقبل میں وبائی امراض کے خطرے کی ایک مثال کورونا وائرس کے ذریعے فراہم کی گئی ہے۔
ٹیکنالوجی کی قابل ذکر صلاحیت کا انکشاف اس وقت ہوا جب محققین نے کورونا کے دوران جینومک سروے کا استعمال کیا۔
دسمبر 2020ء میں جب جنوب مشرقی انگلینڈ میں کورونا کے کیسز میں اچانک اضافہ ہوا تو ٹیکنالوجی نے ظاہر کیا کہ یہ اضافہ ایک نئے اور پہلے سے زیادہ متعدی قسم کی ظاہری شکل سے ہوا۔
دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق، وائرس کی اس نئی شکل کو اصل میں ’کینٹ سٹرین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن بعد میں اسے ’Sars-CoV-2‘ کا نام دیا گیا۔
سنیگر انسٹی ٹیوٹ کے جینومک سرویلنس یونٹ کے رہنما جان سلیٹو کا کہنا ہے کہ ’یہ دریافت سے بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی، ہم نے بہت تیزی سے جینومک ڈیٹا تیار کیا اور دیکھا کہ یہ مختلف قسم بہت زیادہ شرح سے منتقل ہو رہی ہے اور یہ نظام انسان کو دوسرے طریقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے وائرس میں تبدیلیاں دیکھنے کی اجازت دیتا ہے، اب ہم اس نظام کی طاقت کا فائدہ اٹھانے جا رہے ہیں‘۔
محققین کی ٹیم اس منصوبے پر یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی، برطانوی ماہرین تعلیم، اور صحت عامہ کے دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔
اس تحقیق کے لیے پہلے کسی ایسے اسپتال سے نئے داخل ہونے والے مریضوں کے نمونے لیے جائیں گےجہاں ایک نئی ابھرتی ہوئی بیماری کی علامات پہلے ظاہر ہونے کا امکان ہے۔
تاہم اس طرح کی ٹیکنالوجی کو دنیا بھر کی لیبارٹریوں کے مطابق بھی ڈھالنا ہوگا۔