ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی کی نئی ایپ بلیو اسکائی تیزی سے ایلون مسک کے زیر ملکیت سوشل میڈیا نیٹ ورک کے صارفین کو اپنی جانب کھینچنے لگی ہے۔
یہ نئی ایپ گزشتہ دنوں اینڈرائیڈ صارفین کے لیے متعارف کرائی گئی تھی جبکہ ایپل کے ایپ اسٹور میں فروری سے دستیاب ہے۔
تاہم اینڈرائیڈ صارفین کے لیے متعارف کرائے جانے کے بعد بلیو اسکائی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔
ٹوئٹر پر چیک مارکس، سبسکرپشن اور ایلون مسک کے متنازع فیصلوں کے باعث متعدد صارفین متبادل پلیٹ فارم کو تلاش کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد نے ٹوئٹر جیسے ہی نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بلیو اسکائی کا رخ کیا ہے، جس کے فیچرز بھی ٹوئٹر جیسے ہی ہیں۔
فی الحال تو بلیو اسکائی کا صارف بننے کا انحصار انوائیٹ پر ہے مگر پھر بھی اسے لاکھوں بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔
مجموعی طور پر اسے 3 لاکھ 60 ہزار بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے جبکہ 10 لاکھ سے زائد افراد نے اس کا حصہ بننے کے لیے ویٹ لسٹ میں اپنا نام درج کرایا ہے۔
جیک ڈورسی اس نئی ایپ پر کافی عرصے سے کام کر رہے تھے اور ٹوئٹر کے برعکس اس نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں صارفین کا ڈیٹا خود مختار سرورز میں محفوظ کیا جاتا ہے، یعنی اس تک رسائی ممکن نہیں۔
جیک ڈوسی ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں ٹوئٹر کو کمرشلائز کرنے پر پچھتاوا ہے اور انہیں موقع ملا تو وہ ایک اوپن سورس پراجیکٹ پر کام کرنا پسند کریں گے۔
اگست میں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘میرا سب سے بڑا پچھتاوا یہ ہے کہ ٹوئٹر ایک کمپنی بن گئی’۔
بلیو اسکائی پراجیکٹ پر 2019 میں کام شروع ہوا تھا اور آغاز میں ٹوئٹر نے ہی اس پلیٹ فارم کے لیے سرمایہ فراہم کیا تھا۔
بعد ازاں 2022 میں اسے ایک خودمختار کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔
اس نیٹ ورک کا دعویٰ ہے کہ یہ حکومتی اثر سے مکمل آزاد ہوگا۔
بلیو اسکائی کے سی ای او Jay Graber نے کچھ عرصے پہلے بتایا تھا کہ اس سوشل میڈیا نیٹ ورک میں صارفین کو اپنی فیڈ خود ڈیزائن کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آغاز سے ہی صارفین کے تحفظ کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔