جنیوا: ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سیلاب،خشک سالی، قحط، آب وہوا میں تبدیلی، جنگوں اور نقل مکانی سے عالمی بھوک میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس طرح دنیا بھرمیں 25 کروڑ افراد شدید غذائی قلت کے شکار ہوچکے ہیں۔
غذائی بحران کی عالمی رپورٹ آئی جی اے ڈی کے تحت کلائمٹ پریڈکشن اینڈ ایپلی کیشنز سینٹر کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے تحت 2016 میں دس کروڑ آٹھ لاکھ افراد غذائی قلت کے شکار تھے اور 2023 میں بھوک کا عفریت 25 کروڑ 80 لاکھ افراد کو اپنے چنگل میں لے چکا ہے۔ اس طرح چند برسوں میں ہی شدید غذائی قلت کی شرح میں 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان میں مشرقی افریقہ کے 8 غریب ترین ممالک سرِفہرست ہیں جہاں 5 کروڑ 70 لاکھ افراد بھوک سے بے حال ہیں اورغذائی قلت کی شکار عالمی آبادی کا 22 فیصد حصہ ہیں۔ انہوں نے سال 2022 میں بدترین قحط اور بھوک دیکھی ہےجن میں کینیا، جیبوٹی، ایرٹیریا، صومالیہ، جنوبی و شمالی سوڈان، ایھتیوپیا اور یوگینڈا شامل ہیں۔
کووڈ وبا نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے، جبکہ کئی ممالک کا انحصار چراہ گاہوں، سبزے اور برسات پر ہے۔ پھر یہ ممالک شدید خشک سالی کے بھی شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں مارچ 2023 میں خوراک کی قیمتیں اتنی بلند ہوئیں کہ عام افراد کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ ان میں پاکستان کے علاوہ صومالیہ، زمبابوے، گھانا، حبشہ، نمیبیا اور میانمار وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب 2022 میں پاکستان کے سیلاب سے کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور کئی خوردنی اشیا کی قلت بھی ہوئی ہے۔