غزہ میں جاری وحشیانہ کارروائیوں میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بمباری کے دوران اہداف کے تعین کے لیے غیرتصدیق شدہ اور پوشیدہ آرٹیفیشل انٹیلیجینس (اے آئی) پاور ڈیٹا بیس استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوگیا ہے، جس سے ماہرین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مترادف قرار دیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلیجینس کا ڈیٹا بیس استعمال کرنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے اور ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کہا ہے کہ یہ جنگی جرائم کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی-فلسطینی میگزین پلس 972 اور عبرانی زبان کا اخبار لوکل کال نے حال ہی میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ہزاروں فلسطینیوں بمباری کے اہداف کے لیے اے آئی کا معاون ٹارگٹنگ سسٹم لیونڈر کا استعمال کر رہی ہے۔
مشرقی یروشلم سے الجزیرہ کے رپورٹر نے بتایا کہ مذکورہ ڈیٹابیس غزہ میں شہید ہونے 37 ہزار افراد سے میں اکثر کو نشانہ بنانے کا ذمہ دار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی اخباروں کو شناخت ظاہر کیے بغیر خفیہ ایجنسی کے عہدیداروں نے بتایا کہ لیونڈر میں غلطی کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے لیکن اسرائیل کو غزہ میں حماس سے منسلک عام افراد کی شناخت اور ان کو فوری طور پر نشانہ بنانے میں مشکل پیش نہیں آئی۔
حمد بن خلیفہ یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز اور ڈیجیٹیل ہیومینٹیز کے اسسٹنٹ پروفیسر مارک اوون جونز نے بتایا کہ یہ واضح ہو رہا ہے کہ اسرائیلی فوج عام شہریوں کی زندگی اور موت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے غیرمصدقہ اے آئی نظام نصب کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہو کہ یہ اے آئی کے تعاون سے نسل کشی ہو رہی ہے اور جاری ہے اور جنگ میں اے آئی کے استعمال کے لیے ایک قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
اسرائیلی اخبارات نے رپورٹ کیا کہ اس طریقے کے تحت غزہ میں شہید ہونے والے ہزاروں شہری نشانہ بنے۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شروع کی گئیں کارروائیوں میں اب تک 33 ہزار 37 فلسطینی شہید اور 75 ہزار 668 شہری زخمی ہوگئے۔
اخبارات نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے موجودہ تنازع کے پہلے ہفتے کے دوران فیصلہ کیا تھا کہ لیونڈر کی جانب سے نشان زدہ حماس کے ہر عام کارکن کو نشانہ بنایا جائے گا اور 15 سے 20 شہریوں کو قتل کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ اگر حماس کے سینئر عہدیدار نشانہ بنے تو پھر اسرائیلی فوج کئی مواقع پر صرف ایک کمانڈر کو مارنے کے لیے 100 سے زائد شہریوں کو بھی قتل کرنے کی اجازت دیتی تھی۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی بین سائیل نے کہا کہ رپورٹ میں دی گئی تفصیلات اگر درست ثابت ہوتی ہیں تو غزہ میں کی گئیں اسرائیل کی کئی کارروائیاں بلاتفریق حملوں کے تحت جنگی جرائم شمار ہوں گی۔
فلسطین کے معاملے پر نظر رکھنے والے آسٹریلیا کے صحافی انٹونی لوئیوینسٹین نے کہا کہ اسرائیل یہ آلات ان بیرونی اداروں اور حکومتوں کو شرمندگی کے بجائے فخر کے ساتھ فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر نظر رکھ رہے ہیں۔