شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے امریکا کے ایوان نمائندگان کی جانب سے ایپ پر پابندی عائد کرنے کے بل کی منظوری کے بعد قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کردیا۔
امریکا کے ایوان نمائندگان کی جانب سے دو روز قبل ہی ٹک ٹاک کو کسی بھی امریکی کمپنی کو فروخت کرنے اور دوسری صورت میں اس پر پابندی عائد کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک کو کسی بھی امریکی کمپنی یا شخص کو فروخت کرنے کی دھمکی دی تھی، دوسری صورت میں اس پر پابندی عائد کرنے کا کہا تھا اور کچھ وقت کے لیے امریکی حکومت نے ایپ پر پابندی بھی عائد کردی تھی۔
لیکن بعد ازاں عدالتوں نے ٹک ٹاک کو ریلیف دیتے ہوئے اس پر امریکا میں پابندی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اب ایک بار پھر امریکی حکومت ایپلی کیشن کو قومی سلامتی کا خطرہ قرار دے کر اسے امریکی کمپنی یا شخص کو فروخت کرنے یا دوسری صورت میں پابندی کا سامنا کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔
اور اسی سلسلے میں امریکی ایوان نمائندگان نے دو روز قبل ہی ٹک ٹاک کو امریکا کو فروخت کرنے یا دوسری صورت میں اس پر پابندی عائد کرنے کا بل منظور کیا تھا۔
اب ٹک ٹاک نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکا میں اپنی مجوزہ پابندی کے امریکی حکومت کے فیصلے کے خلاف ہر قانونی جنگ لڑے گا۔
اقتصادی جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکا میں ٹک ٹاک کے سربراہ نے اپنے ملازمین کو بھیجے گئے میمو میں ایوان نمائندگان کی جانب سے منظور کیے گئے بل کو امریکی ٹک ٹاک صارفین کے حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔
ٹک ٹاک کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ کمپنی اپنی مجبوزہ پابندی کے خلاف تمام قانونی محاذوں پر اپنا دفاع کرے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر ٹک ٹاک کو تمام قانونی محاذوں پر ناکامی ملی تو بعد میں کمپنی ایپلی کیشن کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرے گی لیکن اس کے لیے ٹک ٹاک کو پہلے چینی حکومت سے منظوری لینے پڑے گی اور چینی حکومت پہلے ہی اس بات سے انکار کر چکی ہے کہ ٹک ٹاک کو فروخت کیا جائے گا۔