حُقہ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں کافی مقبول ہے اور رہا ہے اور اسے سگریٹ نوشی کا ایک محفوظ متبادل بھی سمجھا جاتا ہے تاہم یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔
سچ یہ ہے حُقے میں کینسر کے ذمہ دار بہت سے اجزا ہوتے ہیں جنہیں carcinogens کہا جاتا ہے۔ خطرے کی شدت کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص نے دھواں کتنی مقدار میں اور کتنی گہرائی تک لے کر گیا۔
ایک تحقیق کے مطابق کالج کے طلباء کی بڑی تعداد حقہ یا شیشہ پیتی ہے۔ دیگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حقہ نوشی کی شرح عام آبادی میں تقریباً 30 فیصد ہے جب کہ زیادہ تر طلبا عام طور پر اس سے منسلک ممکنہ خطرے سے لاعلم بھی ہیں۔
بڑی عمر کے افراد کی بات کی جائے تو یہ شرح 60 فیصد تک ہوجاتی ہے۔ ان میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو حقے کو سگریٹ کی طرح خطرناک نہیں سمجھتے جبکہ کچھ لوگ تو اسے سرے سے نشے کے طور پر یا سگریٹ نوشی کے طور پر دیکھتے ہی نہیں ہی۔
امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ انفیکشن (CDC) کے مطابق حقہ سگریٹ نوشی کی طرح ہی زہریلا ہے۔ مطالعات کے جائزے سے پتا چلا ہے کہ اس میں 27 معلوم اور مشتبہ کارسینوجنز موجود ہیں۔ ان میں سے کئی کارسنوجینز سگریٹ کے مقابلے میں حقے میں زیادہ ہیں، بشمول کاربن مونو آکسائیڈ جو دل کی بیماری کا باعث ہے۔
حقہ پینے والوں کو انہی کینسروں کا خطرہ ہوتا ہے جو سگریٹ نوشی کرنے والوں کو ہوتا ہے جیسے کہ:
پھیپھڑوں کا کینسر
سر اور گردن کا کینسر
غذائی نالی کا کینسر
منہ کا کینسر
معدے کا کینسر: حالیہ مطالعات میں حقہ نوشی، معدے کا کینسر اور زخموں کے درمیان تعلق کا انکشاف ہوا ہے
مثانے کا کینسر
لبلبے کا کینسر
لیوکیمیا (leaukemia): حقے میں بینزین (benzene) بھی پایا جاتا ہے جو کہ ایک کارسینوجن ہے اور ایکیوٹ مائیلوجینس لیوکیمیا (AML) اور خون سے متعلق دیگر کینسر سے وابستہ ہے۔
محققین نے حقہ نوشی کرنے والے 105 افراد کا جائزہ لیا۔ انہوں نے پایا کہ ان میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کے مقابلے میں بینزین کی سطح 4.2 گنا زیادہ تھی۔
سگریٹ اور حقے کے دھوؤں میں پائے جانے والے دیگر زہریلے مادوں میں آرسینک، کوبالٹ، کرومیم اور سیسہ بھی شامل ہیں۔