پارکنسنز کی تشخیص کے لیے خون کا نیا ٹیسٹ وضع

eAwazصحت

لندن: سائنس دانوں نے ایک نیا خون کا ٹیسٹ وضع کیا ہے جو رعشے کے مرض (پارکنسنز بیماری) کی پیش گوئی علامات ظاہر ہونے سے سات برس پہلے تک کر سکتا ہے۔

یہ بیماری ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں دماغ کے حصے وقت کے ساتھ ناکارہ ہوتے رہتے ہیں جس کے سبب جسم میں جھٹکے، حرکت میں سستی اور یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

فی الحال اس بیماری کا کوئی علاج نہیں لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ مرض کی جلدی تشخیص اس کے علاج کو ڈھونے میں مدد دے گی جو اس بیماری کو سست کرنے یا روکنے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ ٹیسٹ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی فرد میں پارکنسنز ہونے کے امکانات کی پیش گوئی کرتا ہے۔ یہ بیماری دماغ کے اس حصے (جو حرکت پر قابو رکھتا ہے) میں موجود اعصابی خلیوں کی موت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔

جب یہ اعصابی خلیے مر جاتے ہیں یا ان کو نقصان پہنچتا ہے تو ان کی ڈوپامائن نامی اہم کیمیکل بنانے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔

فی الحال پارکنسنز میں مبتلا افراد کا علاج ڈوپامائن ری پلیسمنٹ تھراپی سے کیا جاتا ہے جس سے جتنا ممکن ہو سکے اتنا معیارِ زندگی بہتر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سینئر مصنف پروفیسر کیون ملز کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے پارکنسنز کے علاج کے لیے نئی تھراپیز دستیاب ہو رہی ہیں، معالجین کو علامات ظاہر ہونے سے پہلے بیماری کی تشخیص کی ضرورت ہے۔

یہ ٹیسٹ خون میں بیماری سے متعلقہ آٹھ پروٹینز کو دیکھ کر کام کرتاہے۔