امریکا میں ایک جج نے فیصلہ دیا ہے کہ امریکا کی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے اپنے سرچ انجن کی غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق پیر کو گوگل کے خلاف آنے والے فیصلے کو تاریخی قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ گوگل نے عدم اعتماد کے قانون کو توڑا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گوگل پر 2020ء میں عدم اعتماد اور غیر قانونی طریقے سے اجارہ داری قائم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں گوگل اور اس کی پیرنٹ کمپنی ایلفابیٹ کو کتنے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا، جرمانے یا دیگر سزا کا فیصلہ آئندہ سماعت میں کیا جائے گا۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق یو ایس ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا نے اپنے 277 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا یے گوگل نے اینٹی ٹرسٹ قوانین کی خلاف ورزی کی، گوگل نےآن لائن سرچ میں اجارہ داری قائم کی ہے۔
امریکی وفاقی جج نے لکھا ہے کہ گوگل نےآن لائن سرچ میں اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے غیرقانونی کام کیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق گوگل ہر سال اپنے سرچ انجن کو نئے موبائل فونز اور الیکٹرانک گیجٹس پر ڈیفالٹ آپشن کے طور پر انسٹال کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق عدالتی فیصلہ بڑی ٹیک کمپنیوں کے کاروبار کرنے کے طریقے کو بدل سکتا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس فیصلے کو امریکی عوام کے لیے ایک تاریخی جیت قرار دیتے ہوئے کہا یے کہ کوئی بھی کمپنی چاہے کتنی ہی بڑی یا بااثر کیوں نہ ہو قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق گوگل کے عالمی امور کے صدر کینٹ واکر نے کہا یہے کہ کمپنی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی، یہ نوٹ کیا ہے کہ جج امیت مہتا نے گوگل کو انڈسٹری کا بہترین سرچ انجن قرار دیا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے گوگل پر کیس دائر کیا گیا تھا جس کی گزشتہ سال ستمبر سے نومبر تک سماعت ہوئی تھی۔
امریکہ کے محکمہ انصاف نے گوگل کے خلاف اینٹی ٹرسٹ مقدمہ دائر کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ گوگل نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں غیر منصفانہ فوائد حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ سرچ میں اپنی برتری کا استعمال کیا ہے۔