ایک طویل اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کا زیادہ استعمال دیگر طبی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ آٹوامیون ڈیزیز اور خصوصی طور پر’ ملٹی پل اسکلروسیس’ (ایم ایس) کا سبب بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر انسان کو یومیہ صرف 10 گرام نمک استعمال کرنا چاہیے لیکن دنیا کے تقریبا تمام افراد مطلوبہ مقدار سے کئی گنا زیادہ نمک استعمال کرتے ہیں۔
نمک کے زیادہ استعمال سے جہاں بلڈ پریشر جیسی بیماری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، وہیں اس سے دیگر طبی پیچیدگیاں بھی لاحق ہوتی ہیں۔
ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کے زیادہ استعمال کرنے سے ’ ملٹی پل اسکلروسیس’ کا سبب بننے والی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں، جس سے مذکورہ بیماری ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے نمک کے زیادہ استعمال سے آٹو امیون بیماریاں اور خصوصی طور پر ’ ملٹی پل اسکلروسیس’ ہونے کے امکانات کو دیکھا۔
ماہرین نے پایا کہ نمک کے زیادہ استعمال سے خون میں موجود خصوصی کیمیکلز متاثر ہوتے ہیں جب کہ اس سے ٹی سیلز یعنی سفید خون کے جزیات بھی بے ترتیب ہوجاتے ہیں۔
نمک کے زیادہ استعمال سے خون میں چند کیمیکلز کی بے ترتیبی سے آٹوامیون ڈیزیز کا سبب بننے والی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور خصوصی طور پر’ ملٹی پل اسکلروسیس’ ہونے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ نمک کے زیادہ استعمال سے سفید خون کے خلیات سمیت دیگر کیمیکلز کی بے ترتیبی سے خودکار مدافعتی بیماریوں کا سبب بننے والی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ ملٹی پل اسکلروسیس دماغی اور اعصابی کمزوری کی بیماری ہے، جس سے نہ صرف دماغ مفلوج بن جاتا ہے بلکہ اس سے جسم کے دیگر اعضا بھی مفلوج بن سکتے ہیں اور بعض اوقات یہ سنگین بیماری ہوتی ہے اور اس سے عمر بھر کی معذوری بھی ہوسکتی ہے۔
آٹو امیون ڈیزیز(autoimmune disease) یا خود کار مدافعتی بیماریاں اس وقت ہوتی ہیں جب غلطی سے انسان کے اینٹی باڈیز اپنے ہی ساتھی خلیات پر انہیں دشمن سمجھ کر ان پر حملہ کرتے ہیں۔ اینٹی باڈیز انسانی خود میں پائےجانے والے وہ محافظ ہوتے ہیں جو کہ انسان کو بیماریوں سے بچاتے ہیں اور ان کی جنگ تقریبا ہر وقت بیماریوں، انفیکشنز اور وائرسز سے ہوتی رہتی ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہوتا۔