پاکستان بھر میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین امراض ذہنی صحت کی شدید کمی

eAwazصحت

پاکستان میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور غربت، بے روزگاری اور خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ جیسے عوامل خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بنیادی وجوہات ہیں۔

پاکستان بھر میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین امراض ذہنی صحت کی شدید کمی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کو ذہنی علاج کی سہولیات میسر نہیں۔

ان خیالات کا اظہار ملکی اور بین الاقوامی ماہرینِ نفسیات نے ذہنی صحت کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

عالمی یومِ ذہنی صحت کے موقع پر کراچی پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے سینئر ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فاروق نعیم نے کہا کہ پاکستان کو ایک بڑے ذہنی صحت کے بحران کا سامنا ہے، جہاں نفسیاتی اور شخصیت کے امراض بڑے پیمانے پر آبادی کو متاثر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب سے اولین اور فوری مسئلہ خودکشی کی روک تھام ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے مزید وضاحت کی کہ خودکشی کا تعلق جذباتی عدم استحکام، غصے کے مسائل اور روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کی کمی سے ہوتا ہے، جو بظاہر ناقابلِ حل معلوم ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غربت، ملازمت کا عدم تحفظ اور خاندانی نظام کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ذہنی صحت کی خرابی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق نعیم نے خبردار کیا کہ پاکستان میں نفسیاتی مسائل پر کھل کر بات نہیں کی جاتی جس سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو رہا ہے۔ ان کا اندازہ تھا کہ پاکستان کی ایک تہائی آبادی نفسیاتی امراض کا شکار ہے جبکہ شخصیت کے امراض تقریباً 50 فیصد آبادی کو متاثر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بحران کو نظر انداز کرنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے شیزوفینیا جیسے امراض کے لیے فوری علاج اور آگاہی کو ضروری قرار دیا۔

ڈاکٹر فاروق نعیم نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کوگنیٹو تھراپی کے ذریعے خودکشی کے واقعات میں 30 فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بڑھتے ہوئے ذہنی صحت کے مسائل کے خلاف میڈیکل اور نفسیاتی مداخلتوں کی اہمیت پر زور دیا۔

سابق صدر پاکستان سائیکاٹری سوسائٹی ڈاکٹر اقبال آفریدی نے بھی ڈاکٹر فاروق کی تشویش سے اتفاق کیا اور انکشاف کیا کہ پاکستان کی 35 فیصد آبادی ذہنی مسائل کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوں تو اس کے اثرات ملکی معیشت اور قوم کی فلاح و بہبود پر بھی پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی نے ایک صحت مند طرز زندگی اپنانے، بشمول وقت پر سونے اور متوازن خوراک، کو ذہنی صحت کی بہتری کے لیے اہم قرار دیا، خصوصاً صحافیوں کے لیے جن کی روٹین غیر متوازن ہوتی ہے۔

سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عبد الکریم خواجہ نے کہا کہ پاکستان کا ذہنی صحت کا ڈھانچہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے، سندھ میں صرف 140 سائیکاٹرسٹ ہیں، اور 20 اضلاع میں کوئی نفسیاتی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس وقت 22 اضلاع میں ڈاکٹروں کی تربیت کر رہے ہیں اور جلد ہی باقی علاقوں تک بھی یہ سہولت پہنچائی جائے گی۔

جناح ہسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر چونی لعل نے گھریلو خواتین کے نظر انداز شدہ ذہنی صحت کے مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں 60 فیصد آبادی کسی نہ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے۔

سیمینار کا اہتمام پاکستان سائیکاٹری سوسائٹی نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی فارمیوو کے تعاون سے کیا تاکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے ذہنی صحت کے چیلنجز کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔