آزادی پاکستان کی 75 سالہ تار یخ میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن کر ابھرا ؛ وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک معیشت کا ڈھانچہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے اور صنعت اور خدمات کے شعبے معیشت پر حاوی رہے۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی اس رپورٹ میں ملک کے 75 سالہ اقتصادی سفر کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے، جس میں اس عرصے کے دوران تمام اہم اقتصادی اشاریے بڑے پیمانے پر تبدیل ہوتے نظر آئے۔
1947 میں آزادی کے وقت غیر منقسم ہندوستان میں موجود کُل 921 صنعتی یونٹس میں سے صرف 34 یونٹس پاکستان کے حصے میں آئے۔
1950 میں جی ڈی پی 3 ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 2022 میں 383 ارب ڈالر ہو چکی ہے جبکہ جی ڈی پی کی شرح نمو 1950 میں 1.8 فیصد کے مقابلے میں 2022 میں 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی، فی کس آمدنی 1950 میں 86 ڈالر تھی جو کہ اب بڑھ کر 2022 میں ایک ہزار 798 ڈالر ہو چکی ہے، ٹیکس ریونیو 1950 سے 2022 تک 31 کروڑ روپے سے بڑھ کر 6 ارب 12 کروڑ 61 لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔
زرعی شعبے میں گندم کی پیداوار 1958 میں 30 لاکھ 35 ہزار ٹن تھی جو کہ بڑھ کر 2022 میں 2 کروڑ 94 لاکھ ٹن ہوگئی، چاول کی پیداوار 69 ہزار ٹن سے بڑھ کر 9 لاکھ 32 ہزار ٹن ہوگئی، مکئی کی پیداوار 36 ہزار ٹن سے بڑھ کر ایک کروڑ 6 لاکھ ٹن، چینی کی پیداوار 5 لاکھ 85 ہزار ٹن سے بڑھ کر 5 کروڑ 35 لاکھ ٹن ہو گئی۔
گنے کی پیداوار 5 لاکھ 53 ہزار ٹن سے بڑھ کر 8 کروڑ 87 لاکھ ٹن، کپاس کی پیداوار ایک لاکھ 16 ہزار گانٹھوں سے بڑھ کر 8 لاکھ 33 ہزار گانٹھ ہوگئی اور پانی کی دستیابی 6 کروڑ 39 لاکھ ایکڑ فٹ سے 13 کروڑ 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔
بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات مالی سال 73 میں 14 کروڑ ڈالر تھیں جو کہ بڑھ کر مالی سال 2022 میں 31 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگئیں۔
برآمدات مالی سال 1950 میں میں 16 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 2022 میں 31 ارب 80 کروڑ ڈالر ہوگئیں اور درآمدات مالی سال 1950 میں 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھیں جو کہ بڑھ کر مالی سال 2022 میں 80 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ آزادی کے بعد مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بھارت نے اپنے قیام کے فوراً بعد مجموعی دولت میں سے پاکستان کا طے شدہ حصہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی آباد کاری اور ملک کا شدید طور پر تباہ حال معاشی نظام اس نئے ملک کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے تھا لیکن پاکستان کی معیشت اپنے عوام کی محنت اور عزم سے تیزی سے بحال ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 1947 میں 3 کروڑ آبادی والا ملک اپنی آبادی کو کھانا نہیں کھلا سکتا تھا اور اسے اپنی غذائی ضروریات کا بیشتر حصہ بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا تھا جبکہ آج مقامی زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ پاکستان نے تربیلا اور منگلا جیسے بڑے اور چھوٹے ڈیم بنائے، جس سے پانی کا ذخیرہ اور دستیابی کی صلاحیت 66-1965 میں 63.9 ایم اے ایف سے بڑھ کر 2022 میں 131 ایم اے ایف ہو گئی، اس سے زرعی شعبے کی ترقی کے استحکام میں بھی مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل اور خوراک سے متعلقہ اشیا کے برآمد کنندگان میں سے ایک نمایاں ملک کے طور پر ابھرا ہے اور ہر نئی آنے والی حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں نے صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبوں کو فروغ دیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی استقامت نے ملک کو قوت خرید کے لحاظ سے دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت اور جی ڈی پی کے لحاظ سے 44 ویں نمبر پر پہنچا دیا۔
وفاقی سیکریٹری وزارت خزانہ حامد یعقوب شیخ نے کہا کہ پاکستان کا 75 سالہ سفر معاشی، سیاسی، سماجی اور علاقائی واقعات کی کہانی ہے جس نے اس ملک کی تشکیل کی ہے جس میں آج ہم رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کی 50 بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے جس کی جی ڈی پی 3 ارب 83 کروڑ ڈالر ہے، پاکستان نے اپنا متحرک بینکنگ سسٹم بھی قائم کیا جس نے گزشتہ برسوں میں معاشی ترقی کی کو فروغ دیا۔